سندہ گوڈو کے انتظار میں

 Waiting for Godot
سندہ گوڈو کے انتظار میں 
تحرير: وقاص کوسو
سندھ کے حالات دیکھ کر  سیموئل بیکٹ کے قلم سے جنم لینے والی ’’تجریدی ادب‘‘ کا وہ شہکار ڈرامہ جس میں دو کردار آخر تک ’’گوڈو‘‘ کا انتظار کرتے رہتے ہیں مگر ’’گوڈو‘‘ نہیں آتا۔ اس کھیل میں ولادیمیر اور ایسٹراگان نامی دو کردار تو دیکھنے والوں کی آنکھوں سے ہٹنے کا نام نہیں لیتے مگر ’’گوڈو‘‘ نامی کردار آخر تک نظر نہیں آتا۔ اس کے بارے میں کوئی جانتا تک نہیں کہ آخر ’’گوڈو‘‘ کون ہے؟ وہ کہاں ہے؟ کب آئے گا؟ کیوں آئے گا؟ مگر بیکٹ کے دونوں کردار بضد ہیں کہ ’’وہ ضرور آئے گا‘‘ حالانکہ ولادیمیر اور ایسٹراگان ’’گوڈو‘‘ کا انتظار کرتے کرتے تھک بھی جاتے ہیں۔ وہ بے معنی اور بیہودہ انتظار ان میں اس قدر اکتاہٹ پیدا کردیتا ہے کہ وہ مایوسی سے ہمکنار ہوکر سوچنے لگتے ہیں کہ ’’اب گوڈو کبھی نہیں آئے گا‘‘ مگر پھر وہ اپنی مایوسی کے زخم پر امید کی مرہم رکھتے ہیں اور اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ ’’وہ آئے گا۔ گوڈو ضرور آئے گا‘‘ وہ گوڈو جو شخص نہیں ایک علامت ہے۔ وہ کس چیز کی علامت ہے؟ اس سوال کا جواب تو اس سیموئل بیکٹ نے بھی نہیں دیا جو مگر۔
 جس کی ابتدا تجریدی کھیل کے کردار اسٹراگان سے ہوتی ہے۔ جو اپنے پیر سے جوتا اتارنے کی سخت کوشش کرتے ہوئے بڑبڑاتا ہے کہ ’’کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘اور کھیل کا دوسرا کردار ولادیمیر اس کی بات پر سوچنے لگتا ہے۔ ایسٹراگان کہتا ہے کہ ’’میں نے ساری رات اس گڑھے میں گزاری ہے جہاں نامعلوم حملہ آوروں نے مجھے مارا پیٹا ہے‘‘۔ آخرکار وہ جوتا اتارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ پھر دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’’کیا یہ وقت اور یہ مقام صحیح ہے؟ کیا گوڈو کو یہیں آنا ہے؟کہیں ہم غلط وقت اور غلط جگہ پر تو گوڈو کا انتظار نہیں کر رہے؟‘‘ اور پھر پتوں سے عاری درخت کے پاس وہ محو انتظار ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد ایسٹراگان سوجاتا ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تب وہ اپنے ساتہی کو خواب سنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ مگر ولادیمیر وہ خواب سننے میں دلچسبی نہیں لیتا۔ اسٹراگان اپنے ساتھے سے پرانا اورسنا ہوا لطیفہ پھر سے سننا چاہتا ہے مگر ولادیمیر وہ لطیفہ پورا نہیں سنا سکتا۔ کیوں کہ جب بھی ولادیمیر ہنستا ہے تو گردوں کی تکلیف کے باعث اسے پیشاب آنے لگتا ہے۔ وہ پیشاب کرنے بھاگتا ہے اور جب لوٹ آتا ہے تب دونوں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں کہ ’’کیوں نہ ہم خودکشی کرلیں؟‘‘ مگر وہ اس خیال کو ترک کردیتے ہیں۔ ایسٹراگان اپنے دوست سے پوچھتا ہے کہ ’’گوڈو آئے گا تو وہ ہمارے لیے کیا کرے گا؟‘‘ ولادیمیر اسے کہتا ہے کہ ’’میں اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں‘‘ پھر ایسٹراگان کو بھوک ستاتی ہے اور ولادیمیر اسے ایک گاجر دیتا ہے جسے وہ بھوک اور بوریت دور کرنے کے لیے چبانے لگتا ہے۔اس دوراں اسٹیج پر ایک آواز بلند ہوتی ہے۔ وہ دونوں دیکھتے ہیں کہ ایک بوجھ اٹھانے والا غلام نمودار ہوتا ہے۔ اس کی گردن کے گرد رسی بندھی ہوئی ہے اور اس کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا آقا ’’پزو‘‘ اپنے غلام ’’لکی‘‘ کو گالیاں دیتا ہے اور خود مرغی کی بوٹیاں کھاتا ہے اور جو ہڈیاں زمین پر پھینکتا ہے انہیں کھانے کے لیے ایسٹرگان ہاتھ بڑھاتا ہے تو پزو اسے کہتا ہے کہ ان ہڈیوں پر تمہارا نہیں بلکہ میرے غلام لکی کا حق ہے۔ وہ لکی جو مالک کا دل خوش کرنے کے لیے وہاں رقص کرتا ہے۔ سیموئل بیکٹ نے اس رقص کا نام ’’جال‘‘ رکھا ہے۔ جب وہ غلام اور آقا چلے جاتے ہیں جب اسٹیج پر ایک لڑکا نمودار ہوتا ہے اور اپنے ساتھ یہ پیغام لاتا ہے کہ ’’گوڈو آج شام کونہیں آسکے گا۔ مگر کل ضرور آئے گا‘‘
کھیل کا دوسرا حصہ دوسرے دن کا منظر دکھاتا ہے۔ جس میں ولادیمیر کتے کی موت پر ایک گیت گانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اس گیت کے بول وہ دو مرتبہ بھول جاتا ہے۔ کھیل کے دوسرے ایکٹ میں بھی ایسٹراگان گذشتہ دن والی شکایت کرتا ہے کہ’’ رات کو جب میں اپنے گڑھے میں سو رہا تھا تب پھر سے انجان حملہ آوروں نے اس پر تشدد کیا ہے‘‘۔ مگر ولادیمیر ایسٹراگان سے کہتا ہے کہ’’ دیکھو درخت پر پتے آگئے ہیں اوریہ رخت ہم سے بات کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں کچھ بتانا چاہتا ہے‘‘مگر ایسٹراگان کو پھر بھوک لگتی ہے لیکن اس بارولادیمیر کے پاس اسے کھلانے کے لیے گاجر نہیں ہے۔ وہ اسے کہتا ہے کہ’’ اب مولی یا شلغم کھاؤ‘‘۔ جب ایسٹراگان سونا چاہتا ہے تب ولادیمر اس کے لیے لوری گاتا ہے۔ اس کے بعد پزو اور لکی نامی آقا اور غلام پھر ظاہر ہوجاتے ہیں مگر اس بار لکی کے گردن پر لپٹی ہوئی رسی ذرا چھوٹی ہے۔ اس بار پزو کہتا ہے کہ وہ اندھا ہوچکا ہے اور اس کا غلام لکی گونگا! اس کے بعد وہ جب دونوں چلے جاتے ہیں تب وہ پیغام پہنچانے والا لڑکا پھر سے نمودار ہوتا ہے مگر اس بار ولادیمیر اور ایسٹراگان کو شک ہوتا ہے کہ یہ وہی لڑکا ہے یا اس کا بھائی؟ مگر وہ لڑکا پھر سے آکر وہی پیغام دیتا ہے کہ ’’گوڈو آج بھی نہیں آ پائے گا مگر کل وہ ضرور پہنچ جائے گا‘‘ وہ لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ ’’گوڈو کی داڑھی کا رنگ کیسا ہے؟‘‘ لڑکا بتاتا ہے کہ ’’سفید‘‘ وہ لڑکے کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر لڑکا نکل جاتا ہے۔ ایسٹراگان پھر سے اپنے جوتے اتارنے کی کوشش کرتا ہے اور ولادیمیر اپنے آپ کو مارنے کے لیے خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔ مگر پینٹ کا بیلٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کل ہم اس سے زیادہ مضبوط بیلٹ لائیں گے اس سے لٹک کر خودکشی کریں گے اگر گوڈو نہیں آیا!!
 سندھ کے لوگوں کو بہی اس ڈرامے کی طرح کھبی سیاسی کبھی قومپرست اور علیحیدگی پسند پارٹیان کسی نا کسی گوڈو کے آنی کی نوید سناتے ہیں اور ہم سب ایسٹراگان اور ولادمیر کی طرح انتظار کرتے کرتے تھک گئے پہر بہی وہ ہر دن خودکشی سے لوٹ کر پھر سے اس ’’گوڈو‘‘ کا انتظار کرتے ہیں جن کے بارے میں یہ نام نہاد لیڈران  انہیں ہر روز یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ ’’گوڈو آج نہیں آ پائے گا مگر کل ضرور آئے گا.جب تک سندھ کے لوگ اس گوڈو کا انتظار کرنا نہیں چہورین گے تب تک کجہ بہی تبدیل نہین ہوگا ۔سندہ ک لوگ سیموئل بیکٹ کی یہ کتاب ضرور خرید لائیں جس کا نام ہے:
Waiting for Godot

Comments